خوش قسمت انسان وہ ہے جو رمضان المبارک کا استقبال کرے‘ لفظوں میں‘ جذبوں میں‘ سوچوں میں‘ وجدان میں‘ اور رمضان المبارک کو ہر لمحہ اپنے سامنے رکھے‘ رمضان گرمی کا ہو‘ حبس‘ لمبا دن‘ مختصر راتیں‘ شدت کی پیاس‘ بھوک کا اضطراب اور بے چینی یہ ساری چیزیں لیکن جو شخص اپنے جذبوں اور سوچوں میں رمضان کا استقبال کرتا ہے‘ قدرت کی طرف سے اسے جو سب سے پہلی چیز ملتی ہے وہ کلیجے اور سینے کی ٹھنڈک ملتی ہے۔ روح کی پرواز ملتی ہے‘ سچے جذبوں کی آبیاری اور کشف کی کیفیات متوجہ ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا عمل:بظاہر ایک چھوٹا سا عمل ہے لیکن نیت کی تاثیر زندگی میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نیت ہمارے سارے جتنے بھی نظام ہیں ان سب پر کارفرما ہے‘ کوئی بھی کام اگر ہمارا جذبہ سچا ہو تو ہم سچے لوگوں میں لکھے جاتے ہیں اور جذبہ غلط ہو تو جھوٹے لوگوں میں لکھے جاتے ہیں‘ بالکل اسی طرح ہماری زندگی میں رمضان کا سچا جذبہ اور اس کے اثرات بہت زیادہ کارفرما ہیں۔ عام انسان اور عقل سوچ نہیں سکتے کہ ہم سے پہلے جتنی بڑی ہستیاں گزری ہیں انہوں نے روحانیت اور ولایت کی دنیا میں اپنے نام روشن کیے ہیں۔ ان کی زندگی میں جہاں اور قبولیت اور مقبولیت کے راستے اور راہیں تھیں وہاں ایک چیز یہ بھی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ رمضان کا بھرپور استقبال کیا اور رمضان کو اپنی زندگی میں ٹھنڈک کا احساس دیا ہے نہ کہ گھبراہٹ‘ بے چینی اور اکتاہٹ کا۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ولی شعبان کے مہینے میں بہت خوش تھے اور ان کے چہرے‘ لہجے‘ ان کے الفاظ‘ ان کے انداز سے نہایت خوشی ٹپک رہی تھی۔ کسی نے پوچھا کہ یہ سب خوشی آپ کے ہر انداز سے ٹپک رہی ہے اس کی وجہ؟تو فرمانے لگے :دراصل اس خوشی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رمضان آرہا ہے! اور ہے سخت گرمی کا‘ روزہ بہت لمبا‘ پیاس بہت شدت کی‘ راتیں چھوٹی‘ آرام مختصر‘ مجاہدہ زیادہ‘ پھر خوشی خوشی فرمانے لگے: یہی چند دن تو ہیں مجاہدے اور قربانی کے‘ پھر ہمیشہ کا عیش ہمیشہ کی راحت اور دائمی عزت اور وقار اور آخرت کا استقبال‘ وہ یہ لفظ جھوم جھوم کر اور حالت وجدان میں کہے جارہے تھے اور لوگ منہ میں انگلیاں دابے ان کی باتیں سن رہے تھے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اور ان کے بول ہمیں سمجھ نہیں آرہے۔ پھر خود ہی فرمانے لگے: دراصل اللہ تعالیٰ کی نظر بندے کے دل پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ بندے کے اندر کا جذبہ کیا ہے؟ اگر تو اس کا جذبہ رمضان کے استقبال کا ہوتا ہے کیونکہ مہینہ اللہ کریم نے بھیجا ہے‘ مجاہدہ بھی اسی کی طرف سے آیا ہے اور قربانی بھی وہ خود بندوں سے لینا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے کہ میرے بندے نے میرے انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ بندہ روزہ بھی رکھے‘ قربانی بھی کرے‘ مجاہدہ بھی کرے لیکن دل اندر سے مطمئن نہ ہو یا دل کی کیفیت وہ نہ ہو جو میرا رب چاہتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی چاہت کے خلاف کیفیت ہے اور پھر فرمانے لگے: ہر رمضان میں‘ میں اللہ تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ سخت گرمی کا رمضان ہو کیونکہ میں وہ شخص تھا جو راستے میں لوگوں سے قذاقی کرتا تھا‘ لوٹ مار کرتا تھا۔تونے مجھے لوٹ لیا مگر ۔۔!: ایک دفعہ ایک شخص کو لوٹا‘ وہ کوئی اللہ کے دوست تھے‘ کہنے لگے: تو نے تو مجھے لوٹ لیا لیکن میں تجھے ایک امانت لوٹا رہا ہوں‘ ان کے لفظوں اور لہجے میں اتنا خلوص اور لجاہت تھی کہ میں وہیں ٹھہر گیا پھر فرمانے لگے: اگر کبھی لوٹ سے تیرا دل بھر جائے اور اللہ تعالیٰ کی دوستی کی طرف تیرا خیال آئے تو پھر جب رمضان المبارک آئے تو رمضان المبارک سے پہلے دل ہی دل میں اس کا خوشی سے استقبال کرنا اور خوش ہوکر اس کو چاہنا۔ ہمیشہ کامیاب رہو گے‘ اللہ تعالیٰ کی دوستی کو اتنے تھوڑے عرصہ میں پالو گے جو شاید کبھی کسی نے نہ پایا ہو۔وہ رمضان میری زندگی کا پہلا رمضان تھا: انہوں نے مجھے سب کچھ لوٹا دیا‘ بس اس دن سے چوری سے توبہ کی اور پھر رمضان کا انتظار کرنے لگا اور رمضان کا ہر پل میرے اندر ایک نئی کروٹ اور نئی محبت کا جذبہ پیدا کرتا تھا۔ آخرکار رمضان آیا تو زندگی میں پہلا رمضان تھا جو میں نے روزے رکھے‘ سخت گرمی‘ لمبا دن‘ مختصر راتیں لیکن میری خوشی نے مجھے اتنا آگے بڑھایا کہ رمضان کے آخر میں میں نے ایک خواب دیکھا اور مجھے کسی کہنے والے نے کہا کہ آج کے بعد تو اللہ کے دوستوں میں ہے تو میں نے پوچھا کس عبادت کی وجہ سے فرمایا کسی عبادت کی وجہ سے نہیں جو تو نے رمضان کا سچے جذبوں اور خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے دوستوں میں شامل کرلیا۔آئیے! ہم بھی آج کے بعد فیصلہ کریں: آئیے ہم بھی آج کے بعد فیصلہ کریں کہ ہم ہر آنے والے رمضان کو دل و جان سے قبول کریں گے اور دل و جان سے اس کا ساتھ دیں گے اور اندر خوشی ہو‘ راحت ہو‘ سرور ہو اور پیار ہو۔ یقین جانیے! عمل بہت مختصر ہے لیکن کرکے دیکھیں تو سہی وہ ملے گا جسے شاید ہم بڑے بڑے مجاہدے کرکے بھی نہ پاسکیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں